ضرور پڑھیے
اک بار پڑھا تھا کہ اولادیں اس لیے ہوتی ہیں کہ جب ہم
مر جائیں تو جنازوں کو کندھے دیں...ہمیں پیار سے نہلائیں، سفید اجلے کپڑے
پہنائیں...اور دھیرج سے مٹی کے گھر میں لٹا کے اوپر سے مٹی کا لحاف دے کر
کے چلے آئیں...اس روز لیکن عجیب ہی ہوا....عمر قدوسی کے وہ محلے دار ہیں...بہت متقی ...خود بھی جوان اور بیٹا بھی بائیس برس کا جوان....ماں کے ہاتھ کا کھانا کھایا...سر درد تھا دوا لی...اور سو گیا....فجر مسجد میں پڑھنے والا گھرانہ...نماز کے لیے نہ اٹھا...باپ نے اٹھایا قریب ہی چوبرجی چوک میں ایک ہسپتال لے گئے..انہوں نے کہا ہمارے بس کا نہیں ...کارڈیالوجی ہسپتال لے گئے...انہوں نے کہا کہ دل کا معاملہ نہیں دماغ کا لگتا ہے...سروسز ہسپتال لے گئے...وہاں ایک ایک بیڈ پر دودو مریض پڑے تھے... انہوں نے کہا کہ دماغ کا علاج جنرل ہسپتال میں اچھا ہوتا ہے اسے وہاں لے جائیں...سو لے گئے...انہوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت کا مریض ہے اور ہمارے پاس اس شعبے میں صرف پانچ بستر ہیں آپ گنگا رام ہسپتال لے جائیں...باپ کیا کرتا ....؟....مجبور محض...گنگا رام چلا آیا....بیٹا مٹھی سے گرتی ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا تھا ...اور باپ دیوانہ وار لاھور کی سڑکوں پر اسے لیے لیے پھر رہا تھا....میاں شہباز شریف کی بنائی ہوئی کھلی اور شفاف سڑکیں اسے بازو کھولے راستہ دے رہیں تھیں
..گنگا رام والوں نے کہا کہ ہماری تو مشینیں ہی خراب ہیں....بیٹے کو اٹھایا... "ڈاکٹرز ہاسپٹل" چلا آیا...انہوں نے اسے کھلے دل سے "ویلکم" کہا.... بچے کو داخل کیا...باپ کو کہا کہ علاج سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کروا دے...وہ شائد پندرویں سکیل میں واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں....خیر ایک لاکھ جمع کروایا...اگلے روز انہوں نے کہا کہ ہمارا روز کا بل ساٹھ ہزار روپے بنے گا اور معامله لمبا لگتا ہے....پاب نے جوان بچے کو اٹھایا جو دو روز سے بے ہوش تھا....جناح ہسپتال لے آیا....وہاں کی کہانی اس سے بھی عجیب ہے ...دو دن رہے ..میرا بھتیجا حنین قدوسی جو ساتھ رہا تھا قصہ سنا رہا تھا اور میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں....صرف اتنا سنیے کہ دو روز سینیر ڈاکٹر صرف ایک بار آیا.....
..تیسرے روز باپ نے جوان بیٹے کو اٹھایا "کہ چل بیٹا گھر چلیں ، تمہاری ماں بھی انتظار میں ہو گی...تو بھی تو تھک گیا ہو گا "... بیٹا کہ جو سکون کی نیند سو چکا تھا..ہر درد اس کا مٹ چکا تھا...سانس اور روح کے سب جھگڑے ختم ہو چکے تھے........میں سوچ رہا ہوں کہ بیٹے تو اس لیئے جوان ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے جنازے اٹھائیں.....کتنا مشکل ہوتا ہے اولادوں کے جنازے اٹھانا.....
....اور ہاں اگر کوئی کہے کہ لاھور میں کوئی بھی ہسپتال ہے تو میں کہوں گا
کہ تم جھوٹے انسان ہو...اگر کوئی ایک بھی ہوتا تو اس بچے کو نہ
ملتا.؟؟؟؟؟؟.......جو "شان دار" اور سگنل فری سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا
تھا.......ہاں پل اور سڑکیں بہت شاندار ہیں.....یا پاگل حکمران وافر
ہیں.................ابوبکرقدوسی