Friday, June 3, 2016

اولادیں

ضرور پڑھیے
اک بار پڑھا تھا کہ اولادیں اس لیے ہوتی ہیں کہ جب ہم مر جائیں تو جنازوں کو کندھے دیں...ہمیں پیار سے نہلائیں، سفید اجلے کپڑے پہنائیں...اور دھیرج سے مٹی کے گھر میں لٹا کے اوپر سے مٹی کا لحاف دے کر کے چلے آئیں...
اس روز لیکن عجیب ہی ہوا....عمر قدوسی کے وہ محلے دار ہیں...بہت متقی ...خود بھی جوان اور بیٹا بھی بائیس برس کا جوان....ماں کے ہاتھ کا کھانا کھایا...سر درد تھا دوا لی...اور سو گیا....فجر مسجد میں پڑھنے والا گھرانہ...نماز کے لیے نہ اٹھا...باپ نے اٹھایا قریب ہی چوبرجی چوک میں ایک ہسپتال لے گئے..انہوں نے کہا ہمارے بس کا نہیں ...کارڈیالوجی ہسپتال لے گئے...انہوں نے کہا کہ دل کا معاملہ نہیں دماغ کا لگتا ہے...سروسز ہسپتال لے گئے...وہاں ایک ایک بیڈ پر دودو مریض پڑے تھے... انہوں نے کہا کہ دماغ کا علاج جنرل ہسپتال میں اچھا ہوتا ہے اسے وہاں لے جائیں...سو لے گئے...انہوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت کا مریض ہے اور ہمارے پاس اس شعبے میں صرف پانچ بستر ہیں آپ گنگا رام ہسپتال لے جائیں...باپ کیا کرتا ....؟....مجبور محض...گنگا رام چلا آیا....بیٹا مٹھی سے گرتی ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا تھا ...اور باپ دیوانہ وار لاھور کی سڑکوں پر اسے لیے لیے پھر رہا تھا....میاں شہباز شریف کی بنائی ہوئی کھلی اور شفاف سڑکیں اسے بازو کھولے راستہ دے رہیں تھیں
..گنگا رام والوں نے کہا کہ ہماری تو مشینیں ہی خراب ہیں....بیٹے کو اٹھایا... "ڈاکٹرز ہاسپٹل" چلا آیا...انہوں نے اسے کھلے دل سے "ویلکم" کہا.... بچے کو داخل کیا...باپ کو کہا کہ علاج سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کروا دے...وہ شائد پندرویں سکیل میں واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں....خیر ایک لاکھ جمع کروایا...اگلے روز انہوں نے کہا کہ ہمارا روز کا بل ساٹھ ہزار روپے بنے گا اور معامله لمبا لگتا ہے....پاب نے جوان بچے کو اٹھایا جو دو روز سے بے ہوش تھا....جناح ہسپتال لے آیا....وہاں کی کہانی اس سے بھی عجیب ہے ...دو دن رہے ..میرا بھتیجا حنین قدوسی جو ساتھ رہا تھا قصہ سنا رہا تھا اور میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں....صرف اتنا سنیے کہ دو روز سینیر ڈاکٹر صرف ایک بار آیا.....
..تیسرے روز باپ نے جوان بیٹے کو اٹھایا "کہ چل بیٹا گھر چلیں ، تمہاری ماں بھی انتظار میں ہو گی...تو بھی تو تھک گیا ہو گا "... بیٹا کہ جو سکون کی نیند سو چکا تھا..ہر درد اس کا مٹ چکا تھا...سانس اور روح کے سب جھگڑے ختم ہو چکے تھے........میں سوچ رہا ہوں کہ بیٹے تو اس لیئے جوان ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے جنازے اٹھائیں.....کتنا مشکل ہوتا ہے اولادوں کے جنازے اٹھانا.....
....اور ہاں اگر کوئی کہے کہ لاھور میں کوئی بھی ہسپتال ہے تو میں کہوں گا کہ تم جھوٹے انسان ہو...اگر کوئی ایک بھی ہوتا تو اس بچے کو نہ ملتا.؟؟؟؟؟؟.......جو "شان دار" اور سگنل فری سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا.......ہاں پل اور سڑکیں بہت شاندار ہیں.....یا پاگل حکمران وافر ہیں.................ابوبکرقدوسی

Tuesday, January 5, 2016

بیوی اور سگریٹ !!


انسان بھی سراپا تضادات کا مجموعہ ھے !
اسی لیئے اس کا حساب حشر پہ اٹھا رکھا گیا ھے کہ وھاں حشر کے فیصلے ھونگے ، دنیا تو صرف سامنے کو دیکھتی ھے ،پسِ منظر میں وہ کونسے عوامل ھوتے ھیں جو کسی طوفان کو اٹھاتے ھیں، اس کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ھے ،آخر انسان انتہائی قدم کیوں اٹھاتا ھے ؟،، قتل کیوں کرتا ھے ؟ خودکشی کیوں کرتا ھے؟ اپنے بچے اپنے ھاتھوں کیوں مار دیتا ھے ؟ طلاق کیوں دیتا ھے ؟ اپنے آشیاں کو خود آگ کی نظر کیوں کر دیتا ھے ؟ ھنستی مسکراتی اپنی دنیا کو زندگی بھر کے رونے میں کیوں بدل دیتا ھے ؟ یہ سارے سوال کوہ ھمالیہ کی مختلف چوٹیوں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ھیں کوئی کے-ٹو ھے تو کوئی ماؤنٹ ایوریسٹ ، آج میڈیکل سائنس نے اس کے بہت سارے جواب تلاش کر ان کی داوئیں تک تیار کر دی ھیں،،مگر یہ دوائیں سامنے کے ایک مریض کو دی جاتی ھیں ، اس کو مریض بنانے والے عوامل کی کوئی دوا ایجاد نہیں ھو سکی !!
آئی ایسی موج کہ ساحل چھوٹ گیا !
ورنہ اپنی کشتی ،،،،،کون ڈبوتا ھے ؟
خیر پلٹیئے اپنے موضوع کی طرف کہ یہ حضرتِ انسان پورا پیراڈاکس ھے !
کمزور اتنا کہ ،،،،،،،،،،،،، سگریٹ تک نہیں چھوڑ سکتا !
طاقتور اتنا کہ اللہ سے کیئے ھوئے عہد و پیمان کو توڑ کر رکھ دے ، اس کے نام پر لی گئ امانت کو اس کے بتائے گئے طریقے کے خلاف استعمال کرے ! نکاح جیسے بندھن کو کھڑے کھڑے تار عنکبوت سمجھ کر بکھیر دے ،،
انسان کو تب تک اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی علت یا لت کا نشئ بن گیا ھے جب تک کہ وہ اس کو ترک کرنے کی کوشش نہ کرے ! جس طرح کمرے میں قید شخص کو اسی وقت پتہ چلتا ھے کہ وہ قیدی ھے جب وہ اس کمرے نکلنے کی کوشش کرتا ھے تو دروازہ اسے بتاتا ھے کہ وہ اس کی مرضی کا پابند نہیں ھے ،کسی اور کے تابع ھے ! گناہ بھی ایک لت ھے ،، بڑا معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا بھولا بھالا گناہ اس وقت اژدھا بن جاتا ھے جب اسے اپنے الگ کرنے کی کوشش کرو ! سگریٹ چھوڑنے والا یہی سمجھتا رھتا ھے کہ جس دن وہ چاھے گا سگریٹ چھوڑ دے گا ،مگر قیامت اس وقت گذرتی ھے جب وہ اسے چھوڑنے کی کوشش کرتا ھے ، یہ ڈھائی انچ کا ھلکا سا سگریٹ دس میٹر کا وزنی شہتیر ثابت ھوتا ھے ، اور انسان اسے چھوڑ چھوڑ کر اپنا لیتا ھے ،پھر بے بس ھو جاتا ھے !
بلندی کا سفر بڑا حوصلہ چاھتا ھے ، بڑی قوتِ ارادی چاھتا ھے ،، جبکہ پستی کا سفر بس لڑھکنے پر منحصر ھے ،، پھر انسان خود ھی پتھر کی طرح بغیر زور لگائے ،پستی کی کشش کے زور پر ھی گولی کی طرح نیچے جاتا ھے ، یہ مسکین سی پستی جو پاؤں میں رُلتی پھرتی ھے ، اس کی طاقت کی حقیقت اسی وقت کھُلتی ھے جب آپ بلند ھونے کی کوشش کرتے ھیں ، یہ واپس کھینچتی ھے اس سے جان چھڑانے کی جدوجہد ،جہاد کہلاتی ھے ،ھم عموماً یہ جہاد کرنے کی بجائے پستی کی بدبو سے لُتھڑے رب کے حضور کھڑا ھونا چاھتے ھیں ،،
بلند ھو تو کھُلے تُجھ پہ زور پستی کا !
لڑکھڑائے ھیں بڑے بڑوں کے قدم کیا کیا !!
سگریٹ چھوڑنے والا پہلے سادہ طریقہ اختیار کرتا ھے ،، پھر جب عاجز ھو جاتا ھے تو اپنی قوتِ ارادی کو قسموں کا انجیکشن دیتا ھے ،، قسمیں بھی پہلے سادی ھوتی ھیں ،،پھر بیوی کی طلاق کی قسم تک نوبت چلی جاتی ھے ! اس وقت انسان کو پتہ چلتا ھے کہ وہ کس عفریت کا اسیر ھے ؟ وہ کبھی سگریٹ چھوڑنے کے لئے نسوار کھانا شروع کرتا ھے تو نسوار چھوڑنے کے لئے لہسن منہ میں رکھنا شروع کر دیتا ھے ،مگر بات پلٹ کر پھر سگریٹ تک چلی جاتی ھے !
انسان بیوی کو بھی سگریٹ کی طرح بے ضرر سمجھتا ھے ، جب چاھوں گا پکڑ کر گھر سے نکال دوں گا ،، مگر حقیقت یہ ھے کہ جس دن انسان بیوی کو نکال باھر کرتا ھے اس دن اسے پتہ چلتا ھے کہ وہ تو اس کا نشئ ھو چکا تھا ، اسے بیوی کی عادت پڑ گئ ھے ،، جس طرح سگریٹ کی عادت پکی ھو جاتی ھے ،، وہ اس کی نوک جھونک ،تلخ ترش باتوں ، ڈانٹ ڈپٹ ، حساب کتاب لینے ، اعتراضات جھڑنے ،، الغرض ھر روپ کا عادی ھو گیا ھے ،،
پھر اسے احساس ھوتا ھے کہ وہ جو اس سے بار بار سوال کیا جاتا تھا کہ " کہاں پہنچے ھیں ؟" کتنی دیر تک آئیں گے ؟ کب تک آئیں گے ؟ یہ سارے سوال کسی کی بے تابیاں اور بے قراریاں درشاتے تھے،، کوئی تیرا انتظار کرتا تھا کوئی تو تھا جسے تیری فکر تھی ،، آج منہ اٹھا کر جدھر مرضی ھے چل پڑو ،کوئی پوچھنے والا نہیں ،، جب چی چاھو گھر پلٹو ،پلٹو نہ پلٹو ،، کسی کو پرواہ نہیں پرواہ کرنے والے گنوا بیٹھے ھو ،ڈھونڈ ان کو اب چراغِ رُخ زیبا لے کر ! گھروں میں لگے آٹو سرکٹ بریکر پر ایک پیلا سا بٹن لگا ھوتا ھے جس پہ لکھا ھوتا ھے کہ کبھی کبھی اس بٹن کو دبا کر چیک کر لیا کریں کہ یہ ٹرپ کرتا بھی ھے یا خراب ھو چکا ھے ، ایسا نہ ھو کہ شارٹ سرکٹ سب کچھ جلا کر کر راکھ کر دے مگر تیرا یہ بٹن ٹرپ نہ کرے ،، اسی طرح گھر والی کو دو ماہ کے لئے راضی خوشی اس کے والدین کے گھر بھیج کر اپنا آٹو سرکٹ بریکر چیک کر لیا کرو ،، تا کہ تم دونوں کو ایک دوسرے کے نشے کی شدت کا اندازہ ھو جایا کرے اور طلاق کی نوبت نہ آئے ، اللہ پاک نے بھی ایک ایک کر کے طلاق اسی لئے رکھی ھے کہ دونوں اپنے تعلق کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کر لیں ، اور روز روز طلاق طلاق نہ کھیلا کریں ،لوگ سمجھتے ھیں کہ ایک بیوی چھوڑ کر دوسری کے ساتھ وہ خوش رھیں گے ،جس طرح سگریٹ کا نشئ نسوار سے طلب کا علاج کرتا ھے ،، مگر مطمئن نہیں ھوتا ،، انسان کسی کے ساتھ رھتا ھے تو اس کے مزاج کے مطابق گھِس جاتا ھے ،جس طرح پاؤں کا جوتا جب تک دکان پہ رھتا ھے سب کے لئے برابر ھوتا ھے ،مگر جب کسی پاؤں میں دو چار ماہ رھتا ھے تو اس بندے کے دباؤ کے مطابق جگہ جگہ سے دب کر فٹ ھو جاتا ھے ،، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے مزاج کی رگڑ سے نفسیاتی طور پر گھِس چکے ھوتے ھیں،، بیوی کا سسرال میں گزارہ نہیں ھوتا تو شوھر بیوی کے بغیر باؤلا ھوا پھرتا ھے ،اس کی ویلیو بیوی کے ساتھ ھی تھی ،، بیوی نکال کر ماں اور بہنوں کے لئے بھی وہ ایک چلا ھوا کارتوس ھی ھوتا ھے ،جسے انہوں نے چلا کر اپنا مقصد پورا کر لیا !!
اب جب وہ سسرال بچوں سے بات کرنے کے بہانے فون کرتا ھے تو " پہلی ھیلو " پر ھی اس کے رونگٹھے کھڑے ھو جاتے ھیں،، یہ وھی آواز تھی جو کان کھاتی تھی ،، جسے مزید سننے کے لئے دعا کرتا ھے کہ بچے لیٹ آئیں ،، تا کہ بات لمبی چل جائے ،،

ایک دشمن نما دوست کے نام غالب کا خط


ایک دوست نما کے نام کھلا خط
ــــــــــــــــــــــــــ

تم اپنے رویئے پر غور کرو، میں نے جب بھی دی تمہیں عزت ہی دی اور تم نے جب بھی اچھالی میرے منہ پر خاک اچھالی، میں نے تمہیں دوست بنایا اور صاف کہدیا مجھے تمہارے نظریات سے کوئی غرض نہیں، تم ایک دوست ہو اور دوست رہوگےاور تمہارا یہ حال ہے کہ پشت پر وار کے مواقع ڈھونڈتے ہو، مجھے معلوم ہے تم مطالعے کی ابتدائی سٹیج پر ہو یہ ابتدائی مطالعہ چیری جیسی تاثیر رکھتا ہے، اس تاثیر کے زیر اثر تم بد ہضمی کا شکار ہو،سو جو نگلا ہے اسے اگلنے کو بیقرار ہو، تم میری وال کو پبلک ٹوائلیٹ سمجھ کر دوڑے چلے آتے ہو، یہاں موقع نہ ملے تو اپنی ہی وال کو حالیہ تاریخ کا ڈی چوک بنا دیتے ہو، بظاہر تمہیں روایتی مولویوںکے رویئے سے بڑی شکایتیں ہیں، لیکن کبھی تم نے اپنے رویئے اوراپنے الفاظ پر غور کیا ؟ تم تنہا دس روایتی مولویوں سے زیادہ زہریلے ہو، کیا تمہاری پوسٹیں کوثر و تسنیم میں دھلی ہوتی ہیں ؟ کیا ان میں استعمال ہونے والے الفاظ کو عودِ ہندی کا دخنہ دیا گیا ہوتا ہے ؟ کیا تمہارے عناوین کا خمیر مشک و عنبر سے اٹھتا ہے ؟ اور کیا تمہاری فکر آب حیات کے کٹورے سے نسبت رکھتی ہے ؟ کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ میں نے ایک بار بھی تمہاری عزت پر لفظ تو کیا حرف بھی اچھالا ہو ؟ اور جو تم کرتے آرہے ہو اسے ثابت کرنے کے لئے تمہارے ضمیر کا آئینہ ہی کافی ہے بشرطیکہ مر نہ گیا ہو، آخری بار سمجھا رہا ہوں اپنی حد میں رہو اور کسی اچھےمعالج سے ہاضمے کا علاج کراؤ۔

حامد رسول (شہید )چک مٹھا

  حامد رسول (شہید )چک مٹھا 















حامد رسول (شہید ) حقیقت میں عالی ظرف اور شاگوفتہ مزاج کے ملک تھے
حامد رسول (شہید )اب سے کچھ عرصہ قبل بحرین پولیس میں چلے گے تھے 
اور دشت گردی کا مقابلہ کرتے ہووے 28/7/2015 کو خالق حقیقی سے جا ملے
 اور رتبہ اے شہادت حاصل کیا 
حامد رسول (شہید )تقریبا سات (٧) مہینے پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہووے 
حامد رسول (شہید )بیڈمنٹن کے اچھے کھیلاڑی  اور جنون کی حد تک شوقین تھے 
حامد رسول (شہید )جب بھی پاکستان چھٹی آتے تو سب دوستوں سے رابطہ کر کے بیڈمنٹن کا ٹورنامنٹ ضرور کرواتے تھے
حامد رسول (شہید ) کی یادیں آج بہت رولا رہی  ہیں الله پاک حامد رسول (شہید )
 کی شہادت قبول فرماۓ اور اہل چک مٹھا کو صبر جمیل عطا فرماۓ .
سوگوار :
اہل چک مٹھا  
Two policemen were killed and six injured in a bomb blast in Sitra this morning.
The Interior Ministry described the incident, which took place before 9am, as a terrorist act on its official Twitter account.
All the injured officers, one of whom is critical, have been rushed to hospital for treatment, the ministry confirmed..

نادرا آفس رنمل .عملہ کی من مانیاں .

اللہ کسی کی نیکی ضایع نہیں کرتا----

------------اللہ کسی کی نیکی ضایع نہیں کرتا-------------
ہمارے شہر کا ایک شخص جب فوت ہوا تو اسے غسل دینے والے شخص نے دیکھا کہ اس کا داہنا کندھا ایسے تھا جیسے کیسی نورانی شکل والے بزرگ کا چہرہ، قبر میں اتارتے وقت بھی اس نے محسوس کیا کہ اس کے داہنے کندھے میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔
دفن کے بعد وہ شخص اس مردے کے گھر گیا اور گھر والوں کو ساری کیفیت بتا کر وجہ پوچھی، تو ماں نے یہ واقعہ سنایا۔
میرا بیٹا جب کالج سے فارغ ہوا تو جلد ہی اسے ایک اچھی جگہ نوکری مل گئی، اور ہمیں اس کی شادی کی فکر ستانے لگی، اچھی نوکری ہونے کی بدولت اس کیلئے اچھا رشتہ ملنا کوئی مشکل نہیں تھی۔
ہمارے پڑوس میں ایک دونوں پاؤں سے معذور لڑکی رہتی تھی، جو ہمیشہ ہی وہیل چیئر پر رہتی تھی، اور بغیر سہارے کے کچھ نہ کر سکتی تھی۔
میرے بیٹے نے کہا "امی مجھے اسی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔"
میں نے اور بہنوں نے بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانا، کیونکہ اس کے بقول خوبصورت لڑکیوں کو رشتے ہر جگہ سے مل جاتے ہیں، لیکن اس معذور سے کوئی بھی شادی نہیں کرے گا۔
آخرکار ہمیں اپنے بیٹے کی بات ماننی پڑی اور اس کی شادی اس معذور لڑکی سے کردی۔
وہ ہر روز اپنا ناشتہ خود بنا کر اور اپنی بیوی کو کھلا کر آفس جاتا اور واپس آکر بھی خود ہی سب کچھ کرتا، اپنی بیوی کو باتھ روم وغیرہ لیکر جانے کیلئے وہ اسے اپنے "داہنے کندھے" کا سہارا دیتا تھا۔۔۔
اور اسی لیے اس کا داہنا کندھا چمک رہا تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی کی آسائشیں اپنی معذور بیوی کے نام کردی تھیں۔۔۔

حال دل

 حال دل  
قارئین! اعتراض زندگی کا ایک ایسا انداز ہے جس سے انسان بڑی بڑی نامور ترقی اور کمال سے دور ہو جاتا ہے۔ اللہ کی مخلوق نامعلوم کس حال میں ہے؟ کون کیسے اور کس طرح زندگی گزار رہا۔۔۔؟ کون اللہ کی نگاہ میں بُرا یا اچھا۔۔۔؟ ہم کیسے فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔۔؟
اعتراض سے مراد یہ ہے کہ جو میں کہہ رہا وہ درست ہے اور اللہ کی بناوٹ میں (نعوذ باللہ) کچھ فرق ہے‘ اعتراضات سے انسان بعض اوقات اپنے سچے اور گہرے دوستوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ نظام عالم میں ہمیں بے شمار ایسے واقعات ملیں گے جس سے پتہ چلے گا کہ اعتراض کرنے سے انسان آخرت کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا لیکن دنیا کی کتنی ایسی ترقیاں ہیں جس سے وہ ناکام ہوجاتا ہے۔ جس دور میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ دور شاعری کے عروج کا دور تھا اور اس دور میں دہلی شعرو شاعری کا ایک مرکز تھا‘ علامہ اقبال کی شاعری جب مختلف جرائد اور رسائل میں چھپنے لگی میں ان رسائل کا نام نہیں لیتا جنہوں نے باقاعدہ اقبال کی شاعری کے خلاف لکھنا شروع کیا اور مسلسل لکھتے رہے لیکن اقبال نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اقبال کا انداز مثبت اور اصلاحی تھا۔ اس کے مقابلے میں اسی دور میں بہت بڑے بڑے شاعر لیکن جو اعتراضی اور تنقیدی مزاج رکھتے تھے حالانکہ ان کی شاعری کا مقام اور مرتبہ اقبال سے بہت اونچا تھا لیکن وہ گمنامی کی وادی میں ایسے کھوئے کہ لوگ انہیں جانتے نہیں اور اقبال ناموری اور شہرت کے عروج پر ایسے پہنچے کہ بچہ بچہ اقبال کو جانتا ہے‘ یہ سب ترقی کی بنیاد صرف اور صرف اُس تنقید اور اعتراض کو برداشت اور معاف کرنا تھا اور یہ اقبال کا مزاج تھا اور شیوہ تھا اور اقبال تنقید اور اعتراض کو معاف کرتا تھا اور اس نے اپنی شاعری میں تنقیدی انداز اختیار نہیں کیابلکہ اصلاحی انداز اختیار کیا۔حکیم نوردین بھیروی مہاراجہ کشمیر کا ذاتی اور شاہی معالج تھا‘بہت زیادہ باکمال تھا لیکن ایک چیز جس نے اسے دین محمدی ﷺ سے ہٹا دیا وہ چیز اعتراض تھی اور اعتراض نے اس کی زندگی کو گھن کی طرح کھوکھلا کردیا۔ وہ ہر کسی پر اعتراض کرتا تھا‘ ایک صاحب کمال نے سالہا سال کے تجربے اور مطالعہ کے بعد ایک چیز کہی جو کہ سونے کی سیاہی سے لکھنے کے قابل ہے ’’تنقید سے توفیق چھن جاتی ہے‘‘ یعنی تنقید کرنے سے ترقی ‘کمال‘ کامیابی‘ عزت اور عظمت‘ شان و شوکت سب چیزوں کی توفیق چھن جاتی ہے۔ قارئین! اپنی زندگی کو اعتراض اور تنقید سے دور رکھیں۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور ملے گی جس سے اس کی خوبیاں نظر آئیں گی۔ ہماری نظر خوبیوں پر ہو‘ کمیوں پر نہ ہو۔آپ کو اپنے ایک دوست کا عبرتناک واقعہ سناتا ہوں: موصوف کا مزاج بس ہرلمحہ اعتراض ہی اعتراض اور ہر کسی پر‘ لفظوں پر‘ شخصیات پر‘ دین و دنیا کی ہر چیز پر اعتراض۔۔۔ خوب ہنستے اور ہنساتے ۔۔۔پہلے کسی اور مسلک سے تعلق تھا پھر کہنے لگے وہ میرا مسلک کفر تھا۔۔۔ پھر کہیں اور آگئے۔۔۔ پہلے بھی اعتراض تھا اور موجودہ بھی اعتراض۔۔۔ میں ان کو محبت پیار سے سمجھاتا پھر مجھ پر بھی اعتراض آخر کار… احتیاطاً میں ان سے کنارہ کش ہوگیا لیکن ان کو وہاں بھی قرار نصیب نہ ہوا پھر ایک تیسرا مسلک اختیار کیا اور وہاں بھی وہی اعتراض۔۔۔ میں نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا ۔میں ایک دفعہ اپنے گھر کے قریب گلی سے جارہا تھا اچانک موڑ پر ان سے ملاقا ت ہوئی‘ اعتراضات کی ایک انوکھی بارش‘ میں خاموش رہا اور میں نے ان کا احترام کیا ‘ابھی کچھ عرصہ پہلے موصوف عین عالم جوانی میں فوت ہوگئے۔ اعتراضات کے ایک انوکھے باب کو چھوڑ کر اور اعتراضات کی ایک انوکھی کہانیاں چھوڑ کر کیونکہ انہیں اس مسلک میں بھی قرار نہیں آیا۔ میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اللہ بڑا غفور الرحیم ہے اور کریم ہے‘ بہرحال اعتراض نے ان کی زندگی میں اتنی مشکلات پیدا کیں کہ میری عقل پریشان ہے۔کیوں نہ۔۔۔!!! اپنی زندگی کو اعتراض سے بالکل پاک کردیں۔ میں ایک اللہ والے کی خدمت میں بیٹھا تھا مجھے ایک انوکھی نصیحت کی ‘فرمانے لگے: اللہ کے بندوں کے معاملے اللہ کے سپرد کردو‘ ان کا پیچھا نہ کر‘ نامعلوم کس کا معاملہ اللہ کے ہاں کیا ہے؟ مجھے ایک عظیم شخصیت کی بات یادآئی ‘کسی سے ملاقات کیلئے تشریف لے جارہے تھے‘ راستے میں کسی نے کہا کہ جس سے ہم ملنے جارہے وہ ہرپل ہر کسی پر اعتراض کرتا ہے‘ فرمانے لگے: واپس چلو ملاقات تو نہیں کروں گا لیکن دعائیں ضرور کروں گا کیونکہ اعتراضات سے کہیں اس کا مزید نقصان نہ ہوجائے۔